تحریر: مجتبیٰ علی شجاعی، گنڈ حسی بٹ سرینگر
حوزہ نیوز ایجنسی। آج سے تقریباً چودہ سو برس قبل عراق میں کربلا کے مقام پر پیغمبر رحمت کے نواسہ اصغر حضرت امام حسین ؑ نے بے مثال اور عظیم الشان قربانیاں پیش کرکے اسلام اور انسانیت کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو کنارے لگا دیا۔ سنہ 61 ھجری میں بشریت کی بقاء خون کی آبیاری کا تقاضا کر رہی تھی، کیونکہ بشریت کا خون ایک ظالم و جابر، سفاک و بدمعاش حکمران چوس رہا تھا۔ اس بدمعاش نے دین نبوی میں حلال و حرام کے مابین آمیزش کی تھی۔ بدعات و خرافات کو جنم دے کر دین ناب محمدی کی اصل ہیت کو تبدیل کر دیا تھا۔ اس طاغوتی نظام کو للکارنے کے لئے زمانہ کو ایک شجاعانہ کردار کی ضرورت تھی، کیونکہ اس باطل نظام کے خلاف جو صحابہ اور تابعین صدائے حق کا جذبہ یا ارادہ رکھتے تھے، اس جذبہ اور ارادہ کو ظلم و تشدد، رعب و ہیبت سے خاموش کر دیا جاتا تھا۔
لیکن خیبر شکن کے شجاع بیٹے امام عالی مقام حضرت امام حسین ؑ نے اس ظلم و جور پر استوار باطل نظام کے خلاف جوانمردی، شجاعت اور استقامت کے ساتھ اپنے آپ کو پیش کیا۔ اس نظام کو للکارا اور اپنی عظیم الشان قربانیوں سے یزیدی نظام کو اکھاڑ کر قیامت تک کی انسانیت کو آزاد کروایا۔ تاریخ گواہ ہے کہ تحریک کربلا کوئی ناگہانی حادثہ، سانحہ یا واقعہ نہیں ہے، بلکہ یہ ظلم و نا انصافیوں کے خلاف ایک باضابطہ موومنٹ ہے، باطل کے خلاف علی الاعلان ایک تحریک ہے اور اس تحریک میں اتنا دم ہے کہ امام عالی مقام کا ایک صحابی ”زہیر ابن قینؑ“ آقا امام حسینؑ سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں ”مولا اگر یہ زندگی جاوداں (ہمیشہ رہنے والی) اور آسائشوں کے ساتھ ہوتی۔ تب بھی ہم آپ پر جان قربان کر دیتے۔“
یہ تحریک اتنی مستحکم، پائیدار اور مضبوط تحریک تھی کہ امام عالی مقام کا لشکر صرف 72 افراد پر مشتمل تھا اور ان بہتر افراد میں بچے بھی تھے اور عمر رسیدہ اشخاص بھی تھے۔ اس کے مقابلے میں یزید ملعون کا لشکر روایات کے مطابق 22 ہزار سے 35 ہزار تک تھا، حتیٰ کہ حسین بن حمدان خصیبی نے سوار اور پیادہ ملا کر 56 چھپن ہزار تعداد بیان کی اور یہ سب کے سب شقی القلب، سفاک، ظالم اور اسلحہ سے لیس تھے۔ اس کے باوجود ملعون عمر ابن سعد نے ابن زیاد کو لکھا کہ لشکر کم ہے، کچھ اور افراد بھیج دو۔ ابن زیاد نے عمر سعد کو کہا کہ بہتر کے لشکر کا مقابلہ کرنے کے لئے بائیس ہزار بھیجا اور کتنا بھیجوں، تم پاگل ہوگئے ہو، لیکن ملعون عمر ابن سعد نے کہا کہ تمہیں نہیں پتہ کہ یہ لوگ کون ہیں، یہ خیبر شکن حضرت علیؑ کی اولاد ہیں، اس لشکر کا ایک ایک سپاہی ایک ایک ہزار کا مقابلہ کرسکتا ہے۔
صد در صد کربلا کی تحریک نے انقلاب برپا کر دیا اور ایسا انقلاب جس سے طاغوت لرز اٹھا۔ چند اصحاب و انصار کے ہمراہ امام عالی مقامؑ نے کمال کر دیا۔ اس پختہ نظام نے یزید اور یزیدیت کے ایوانوں کو ہلا دیا، نہ فقط ہلا دیا بلکہ قیامت تک کاخِ یزیدیت لرزتا رہے گا۔ تحریک کربلا کا کمال یہ ہے کہ ابن زیاد کے لشکر کا بہت بڑا فوجی افسر، جس کو ابتدا میں یہ کام سونپا گیا تھا کہ حسین ابن علی ؑ کو کوفہ میں داخل ہونے سے روک دیا جائے۔ اس نے مولا حسین ؑ کا راستہ روکا بھی، لیکن کتنی عظیم الشان ہے یہ کربلا کی تحریک کہ یہی فوجی افسر گھوڑے کو ایڑ لگا کر شرمندگی سے امام حسین ؑکی خدمت میں حاضر ہوکر کہتا ہے مولاؑ ۔۔۔! کیا آپ مجھے معاف کریں گے اور آخر کار سب اولین وقت میں حر بن یزید ریاحی میدان کارزار میں امامؑ کی رکاب میں شہید ہوتا ہے۔ یہ یزیدیت کی بہت بڑی روحانی شکست تھی۔
تحریک حسینی کے مقابلے میں جو لوگ یزید کی صفوں میں موجود تھے، ان میں سے اکثر لوگ امام عالی مقام کی عظمت، آپ کی شان، رتبہ، درجہ اور مرتبت کا احساس رکھتے تھے۔ وہ اس بات سے واقف تھے کہ امام حسینؑ کے بارے میں پیامبر اکرم فرماتے تھے ”حسین ؑ منی و انا من الحسینؑ“ یا ”الحسن ؑوالحسینؑ سید شباب اہل جنہ۔“ اس لشکر میں حر بن یزید ریاحیؑ جیسے احساسات رکھنے والے افراد موجود تھے، لیکن یزید اور اس ملعون کے حواریوں نے ان کے نفسوں کو ذبح کیا تھا، جس وجہ سے ان پر نفسانی خواہشات نے غلبہ حاصل کر لیا تھا۔ یہ لوگ ”صم بکم عمی فہم لایعقلون“ کا مصداق بنے ہوئے تھے۔ انہیں مال و زر کے لالچ نے بہرا اور اندھا کر دیا تھا۔ یہ درندہ صفت افراد وفا کے قائل نہیں تھے، ان کے دلوں میں ہنگامہ برپا تھا، ذہن پراکندہ تھے۔
حسینی لشکر جو بظاہر کم تھا، لیکن اس لشکر کا ایک ایک جوان روحانی کمالات کی بلندی پر فائز تھا۔ بائیس ہزار لشکر کے محاصرے میں یہ حسینی ؑجوان مطمئن قلب تھے، ان کے چہروں پر خوف و ڈر کا احساس تک بھی نہ تھا۔ راہ حق میں قربانیاں دینے کے لئے بے تاب تھے۔ کتنی عظیم تحریک تھی کہ شب عاشورا مائیں اپنے لاڈلوں کو قربانی کے لئے آمادہ کرتی تھیں اور خود اندازہ کیجئے کہ ایک ماں چھ ماہ کے ننھے شیر خوار کو میدان جہاد کے لئے آمادہ کر رہی اور امام کا مجاہد بنا کر پیش کر رہی ہے۔ اس طرح کا حوصلہ، ہمت و استقامت، صبر و رضا اور شجاعت کی مثالیں ملنا ناممکن ہی نہیں محال ہے۔ مثالی خواتین نے سفاکیت اور ظلم و جور کے مقابلے میں اپنے لاڈلوں کا گرمی کی تمازت، بھوک و پیاس کی شدت سے تڑپنا گوارا کیا، اپنے جگر پاروں کی قربانیوں کو برداشت کیا، لیکن دین محمدی پر آنچ نہ آنے دی۔ اس سے بڑھ کر شجاعت کی ایک اور مثال عصر عاشورا باپ اپنے بیٹوں کو میدان کارزار میں جانے کے لئے گھوڑے پر سوار کر رہا ہے اپنے لاڈلوں، اصحاب و انصار کی میتیں خیموں تک لے آتا ہے اور اپنی بہن کا حوصلہ اور ہمت بھی بڑھا رہا ہے۔
بے مثال کرداروں سے تاریخ کربلا بھری پڑی ہے، حسین ابن علیؑ کا جوان بیٹا اپنے باپ سے پوچھ رہا ہے۔ بابا کیا ہم حق پر ہیں؟ مولا نے فرمایا بے شک اس ذات کی قسم جس طرف تمام بندگان خدا کی باز گشت ہے۔ علی اکبر ؑ نے فرمایا بابا جان، تب ہمیں موت سے کوئی پرواہ نہیں۔ 12 سال کے قاسم ابن حسن ؑ کو امام حسین ؑ فرماتے ہیں، میرے عزیز! موت کا ذائقہ آپ کے نزدیک کیسا ہے؟ حضرت قاسم بن حسنؑ فرما رہے ہیں، چچا جان ”احلی من العسل“ شہد سے زیادہ شیرین۔ یہی جذبہ تحریک کربلا کے ایک ایک جوان میں کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ شہادت کا شوق اس قدر عمیق تھا کہ روز عاشورا اذن جہاد حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لے رہے تھے۔ مولا ؑ نے کئی بار اپنے اصحاب کو بلا کر فرمایا، یہاں تک کہ شب عاشورا شمع بجھا کر فرمایا ”تم نے ہمارا حق ادا کر دیا، ہر ممکن مدد کی، یہ لوگ صرف میرے سر کے طلب گار ہیں، جب رات تاریک ہو جائے تو اس تاریکی میں تم لوگ چلے جاو، میں تم سے راضی ہوں۔ اپنی جانیں بچاو۔
امام شہادت کی پیشن گوئیاں کر رہے تھے۔ اللہ اکبر۔۔۔ اصحاب بھی کتنے نڈر، بہادر اور باوفا ہیں، جو کہہ رہے ہیں، مولاؑ ہم آپ کے ساتھ جئیں گے، آپ کے ساتھ مریں گے۔ کسی نے جان بچانے یا اپنے فیصلے پر نظرثانی کا احساس تک بھی نہ کیا۔ مسلم ابن عوسجہ ؑنے کہا مولا ؑ ہم آپ کو چھوڑ کر چلے جائیں تو کل قیامت کے دن کیا جواب دیں گے۔ خدا کی قسم اگر میں ستر مرتبہ بھی مارا جاوں تب بھی آپ کا ساتھ نہ چھوڑوں گا۔ ایک صحابی نے عرض کیا، مولا ہم باپ بیٹے کی جان راہ خدا پر قربان۔ مولا یہ تو ہرگز نہیں ہوگا کہ میں آپ کو چھوڑ کر چلا جاو ں اور پھر ہر قافلہ والوں سے آپ کی خبر دریافت کروں، خدا کی قسم یہ قیامت تک نہیں ہوسکتا۔ (حوالہ کتابچہ ابو الشہداء)۔ اس لشکر الہیٰ میں صرف حسین ابن علی ؑ کے رشتہ دار یا دوست ہی موجود نہ تھے، بلکہ ایسے افراد بھی تھے، جنہیں ایمانی رشتہ کے علاوہ امام عالی مقام سے اور کوئی رشتہ نہ تھا، حتیٰ کہ نو مسلم جوان بھی موجود تھے، اس کے برعکس امام عالی مقام سے ایسی وفاداری نبھائی، جو تا روز ابد وفاداری کی لازوال مثال بن گئی۔
واقعہ کربلا کے ایک ایک لمحے پر غور و فکر کرنے کے بعد عقل اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ ایسا نہیں کہ امام عالی مقام ؑ نے نعوذ باللہ جان بچانے کے لئے کربلا کا انتخاب کیا، بلکہ کربلا کے مقام پر پہنچ کر امام حسین ؑ کا کربلا والوں سے اس جگہ کا نام معلوم کرنا اور کرب و بلا سن کر وہاں قیام کرنا، ایک بہت بڑی دلیل ہے کہ یہ تحریک ایک مستحکم اور محکم ارادہ اور منصوبہ بند تحریک تھی۔ 28 رجب المرجب 60 ہجری سے لیکر کر 2 محرم الحرام 61 ہجری تک یعنی مدینہ سے لیکر کربلا تک کے سفر میں میں، بہت سے لوگوں نے امام عالی مقام کو سفر کربلا ترک کرنے کے مشورہ دیا۔ عبداللہ ابن عباس ؓبھی ان افراد میں سے تھے، عبد اللہ ابن عباس ؓنے جب دیکھا کہ امام عالی مقامؑ نے مصمم ارادہ کر لیا ہے تو امام کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا ”اے چچازاد، میں صبر کرنا چاہتا ہوں، لیکن صبر و تحمل ہو نہیں پاتا، کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ آپ نے جو سفر اختیار کیا ہے، اس میں آپ شہید ہو جائیں اور آپ کی اولاد اسیر ہو جائے۔ اہل عراق پیمان شکن ہیں، لہذا ان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔
ابن عباس نے امام حسین ؑکو کہا کہ اگر آپ مکہ جانے پر ہی مصر ہیں تو بہتر ہے کہ آپ یمن کی طرف چلے جائیں، کیوںکہ وہاں آپ کے والد گرامی کے چاہنے والوں کی کثرت ہے۔ امام ؑنے جواب دیا، اے چچا زاد مجھے یقین ہے کہ آپ ناصحانہ انداز میں شفقت و مہربانی کرتے ہوئے یہ تجویز پیش کر رہے ہیں، لیکن میں نے پختہ عزم و ارادہ کر لیا ہے سفر عراق کا۔ اسی طرح سفر کربلا میں لوگوں کی ایک کثیر تعداد نے امام کا راستہ روکنے کی کوشش کی اور امام سے التماس بھی کیا کہ وہ اپنا ارادہ ترک کر دیں، لیکن امام عالی مقام حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا ”میں خود خواہی یا سیر و تفریح کے لئے مدینہ سے نہیں نکل رہا اور نہ ہی میرے سفر کا مقصد فساد اور ظلم ہے بلکہ میرے اس سفر کا مقصد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔“ مدینہ سے نکلتے وقت آپ نے اپنے بھائی کے نام وصیت نامہ لکھا، جس میں انہوں نے فرمایا ”انی لم اخرج اشرا، و لا بطرا، ولا مفسدا، ولا ظالما، انما خرجت لطلب الاصلاح فی امة جدی۔“ میں نے ہوا و ہوس کی وجہ سے قیام نہیں کیا اور دوسروں پر ظلم و فساد کا ارادہ بھی نہیں ہے بلکہ میں نے اپنے نانا کی امت کی اصلاح کے لئے قیام کیا ہے۔
اسی طرح دربار ولید میں اپنے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے علی الاعلان امام عالی مقام نے کہا کہ ”مثلی لا یبایع مثلہ“ یعنی مجھ جیسا کبھی بھی یزید جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کھلم کھلا اس بات کا اظہار کیا کہ یزید کی بعیت نابودی اسلام کے مترادف ہے۔ یہ تمام دلیلیں اس بات کا بین ثبوت ہے کہ 61 ھجری کا عاشورہ ناگہانی حادثہ یا واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ مدافعان اسلام و انسانیت کی ایک پائیدار و مستحکم تحریک کی معراج ہے۔ کربلا کی یہ تحریک جذباتی تحریک نہیں بلکہ تفکر و تدبر پر مبنی تحریک ہے، اس تحریک کا ایک ایک کردار ثابت قدمی، مستقل مزاجی، شجاعت، وفاداری اور بہادری کے ساتھ انسانیت کی بقاء اور اسلام کی حمایت و نصرت کے لئے میدان جہاد میں درندہ صفت ملعون یزیدی لشکر کے تیروں اور تلواروں کا مقابلہ کر رہا ہے۔ ولی اور ولایت کے دفاع کے لئے اپنے سینوں پر تیر کھا رہے ہیں اور چٹان کے مانند ڈٹے ہوئے صدائے تکبیر بلند کر رہے ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ آج تک ہزاروں تحریکوں نے دھرتی پر جنم لیا، لیکن یہ تحریکیں اکثر و بیشتر مادی اغراض و مقاصد پر مبنی تھیں، جس وجہ سے ان تحریکوں کا نام و نشان تک بھی نہ رہا۔ اس کے مقابلے میں اسلامی اصول و قواعد و قوانین پر مبنی حسینی تحریک شہدائے کربلا ؑ کے مقدس لہو سے سینچی ہوئی ایسی تحریک ہے کہ جس کو مٹانے اور دبانے کے لئے طاغوت نے پوری طاقت لگا دی اور آج بھی اس نظام کو روکنے کے لئے یہ طاقت لگی ہوئی ہے، لیکن یہ تحریک جھکنے، بکنے اور تھکنے کا نام تک نہیں لیتی، نہ روز قیامت تک لے گی بلکہ پوری آب و تاب اور کامیابی و کامرانی کے ساتھ دنیا کے کونے کونے تک پہنچی ہے۔ اس تحریک نے خفتہ اور مردہ ضمیروں کو جگانے اور بیدار کرنے کا کام کیا اور پہلے کے مقابلے میں آج یہ تحریک مستحکم اور پائیدار ہوتی جا رہی ہے، جس کا اندازہ فلسطین، لبنان، ایران اور یمن وغیرہ میں ہو رہا ہے۔
آج استکباری نظام کو اگر کوئی چیز گرا سکتی ہے تو وہ یہی مکتب کربلا ہے، جو قیامت تک ہرا بھرا رہے گا۔ یہ تحریک امام خمینی،ؒ شہید عارف حسین حسینیؒ، شہید مطہریؒ، شہید حججیؒ، شہید قاسم سلیمانیؒ، شہید نمر النمرؒ، سید علی خامنہ ای، شیخ زکزکی، سید حسن نصر اللہ، اسماعیل ہنیہ اور شیخ عیسیٰ قاسم جیسے زمانہ کے حسینوں ؑ کو پیدا کرتی رہے گی۔ جو کاخ یزیدیت، فرعونیت اور نمرودیت کو للکارتے رہیں گے۔ اس نظام سے طاغوت پر خوف و ہیبت طاری ہے، اسی لئے عزاداری کو محدود کرنے کی سازشیں آج دنیا بھر میں رچائی جا رہی ہیں اور اس عزاداری جو درحقیقت ظلم و ظالم، ناانصافی اور انسانی اور مذہبی اقدار کی پامالیوں کے خلاف احتجاج ہے، کے خلاف بین الاقوامی سطح پر حربے اور ہتھکنڈے آزمائے جا رہے ہیں۔ زرخرید ایجنٹوں کے ذریعے اس کو بدنام کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، لیکن زمانے کے یزید لاکھ کوششیں بھی کر لیں، یہ ناکام ہوگئے ہیں اور ہوتے رہیں گے، کیونکہ اس تحریک کا اثر بلا لحاظ مسلک و ملت دنیا بھر کے آزاد منش افراد کے خون میں سرایت کر گیا ہے۔ زوال اور ناکامی ان کو نصیب ہوگی، جو اس عزاداری، اس تحریک کے ساتھ ٹکر لیں گے۔